مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میرے والد صاحب کا ایک دوست پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا' اس کو اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا تھا لیکن اس کی ماں نے خاندان کی ایک بدصورت لڑکی کے ساتھ اس کی منگنی کر دی' لڑکا بار بار انکار کرتا رہا کیونکہ ان کا جوڑ بھی نہیں تھا لیکن ماں کی ضد ختم نہیں ہوئی' اس آدمی نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا' والد صاحب نے کہا کہ ماں کی بات مان لو' اس میں فائدہ ہے' اس آدمی نے ہاں کر دی' شادی
گئی' دلہن گھر آ گئی' یہ کمرے میں گیا اور جا کر صوفے پر سو گیا' صبح اٹھ کر ڈیوٹی پر چلا گیا' رات کو گھر آیا تو پھر سو گیا'بیوی بلاتی تھی جواب نہ دیتا' کمرے میں آتی تو یہ کمرے سے باہر نکل جاتا' بیوی باہر آتی تو یہ کمرے میں چلا جاتا' بیوی اس کے کپڑے دھوتی' جوتے پالش کرتی' کھانا پکا کر اس کے سامنے رکھتی' دل ہوتا تو یہ کھا لیتا ورنہ اٹھا کر کچن میں رکھ دیتا' اگر رات کو دو بجے بھی گھر آتا تو بیوی تازہ روٹی پکا کر سالن گرم کر کے اس کے سامنے رکھ دیتی لیکن یہ بیوی کو بلاتا نہیں تھا' سلام کا جواب بھی نہیں دیتا تھا' ایک دن بیوی نے سوچا کہ اگر میں احتجاج کروں گی' اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو یا سسرال والوں کو بتاؤں گی تو یہ آدمی مجھے طلاق دے گا تو پھر میں کیا کروں گی' میری قسمت میں اگر یہی کچھ ہے تو یہ مجھے قبول ہے لیکن علیحدگی قبول نہیں'گھر میں نوکر بھی تو ہوتے ہیں' میں آج سے اس کی بیوی نہیں ہوں' اس کی نوکرانی ہوں' بس یہ نوکرانی بن گئی۔ خاوند تو کیا گھر کے تمام افراد کی نوکرانی بن گئی' گھر والے اس کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہو گئے' آخر کار خاوند بھی نرم ہونے لگا' تین سال کے بعد آدمی نے پہلی بار بیوی کو بلایا' اس کے پاس بیٹھا' آہستہ آہستہ یہ مرد اپنی بیوی کا غلام بن گیا' دراصل یہ حسن اخلاق کا غلام بن گیا'یہ ہر وقت نور بی بی نور بی بی کرتا رہتا' ان کے تین بچے بھی ہوئے ایک اچھی اور لمبی زندگی انہوں نے گزاری' جب یہ عورت فوت ہوئی تو یہ آدمی بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دیا۔
Emoticon